یہ کون سخی ہیں
جن کے لہوکی
اشرفیاں، چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی جاتی ہیں
یہ کون جواں ہیں ارضِ عجم
یہ لکھ لُٹ جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اےارضِ عجم اےارضِ عجم
کیوں نوچ کےہنس ہنس پھینک دئے
ان آنکھوں نےاپنےنیلم
ان ہونٹوں نےاپنےمرجاں
ان ہاتوں کی بےکل چاندی
کس کام آئی کس ہاتھ لگی
اے پوچھنے والے پردیسی
یہ طفل و جواں اُس نور کے نورس موتی ہیں
اُس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ سے
ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبحِ بغاوت کاگلشن
اورصبح ہوئی من من،تن تن
ان جسموں کاچاندی سونا
ان چہروں کےنیلم،مرجاں،
جگمگ جگمگ،رُخشاں رُخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی
پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر
یہ امن کی دیوی کا کنگن
(فیض )