Tuesday, February 26, 2013

بیاد غلام عبّاس

بیاد غلام عبّاس 

-یہ مضمون ہفت روزہ نداۓ ملت میں  مورخہ ٢٢ نومبر ٢٠١٢ کوشائع ہوا



Sunday, February 24, 2013

جو اتر کر زینہ شام سے

جو اتر کر زینہ شام سے


جو اتر کر زینہ شام سے تیری چشم خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ مرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ  
وہ  جو لفظ مرے گماں میں تھے وو تیری زبان پر آ گے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی  تھی داستان جسے تم ہنسی میں اڑا گے

وہ  چراغ جاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گۓ

وہ تھا چاند چشم  وصال کا کہ روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گۓ

یہ جو بندگان نیاز ہے یہ تمام ہیں وہ  لشکری
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گۓ

تیری بےرخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گۓ

تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرر رنگ اجڑ گیا
میرے خواہشوں  کے غبار میں میرے ماہ و سال وفا گۓ

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشت خواب میں دور تک کوئی باغ  جیسے لگا گۓ

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گۓ

(امجد اسلام امجد)


A column on Ahmad Fraz

In memory of Ahmed Fraz

This column was published in Daily Jang dated 23 Feb, 2013



Friday, February 22, 2013

ہجرت کریں گے

ہجرت کریں گے 




(محمّد اظہار الحق )



Thursday, February 21, 2013

ایک چوری اوپر سے سینہ زوری

ایک چوری اوپر سے سینہ زوری 



آج کل کے بہت مہان "دانشور " اور جدید اردو شاعری کے خود ساختہ سرخیل جناب وصی شاہ کی اٹھان ایک چوری شدہ نظم سے ہوئی- اپنے ہی لکھے ہوئے ایک تھرلر ڈرامہ میں اپنی ہی کاسٹ کی ہوئی ایک ہیروئن کو ایک چوری کی ہوئی نظم سنا کر شہرت کی بلندیوں کو چھو لینے والے ایک سرقہ باز کے سرقے کی ایک مثال پیش خدمات ہے -



مجید امجد


کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں

تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول

میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں

اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے

ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی

تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش

عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا


ملاحظہ فرمائیں اب آج کل کے "دانشور" کا سرقہ 


وصی شاہ 


کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے دہک سا جاتا

رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی

میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا

جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا


Originally published @ urdu mehfil



Wednesday, February 20, 2013

Fakhira Batool | An assessment by Aitbar Sajid

Fakhira Batool | An assessment by Aitbar Sajid


This article was published in weekly Nidai-Millat dated 14-20 Feb, 2013

Urdu Poetry | Syed Zamir Hussain Jafri

لہو کا نرخ 


پھر اک الجھن شعلہ بن کر لپکی شہر جلانے کو 
پھر اک صر صر غم لے آئی بستی میں ویرانے کو 
کھول دیے خود اپنے جبڑے اپنا گوشت چبانے کو 

کیا ہم کو یہ ہاتھ ملے تھے اپنی لاش اٹھانے کو 

اپنے چاند "غروبے " ہم نے اپنے پھول اجاڑیں ہم 
اپنے ہاتھ اپنے جسم کو ، پرزے پرزے پھاڑیں ہم 
اپنے لہو کی پیاس اٹھی ہے ، اپنا نرخ چکانے کو 

کیا ہم کو یہ ہاتھ ملے تھے اپنی لاش اٹھانے کو 

(سید ضمیر جعفری )


Monday, February 18, 2013

Selection from Persian Literature

Selection from Persian Literature

This article was orginally published in Sunday Magazine of Nawai Waqt, Lahore, dated Feb 18, 2013



Hafeez Taib | An introduction by Anwar Sadeed

Hafeez Taib | Autobiography by Anwar Sadeed

This article was originally published in Weekly Nidai Millat, Pakistan dated Feb 18, 2013


چل انشاء اپنے گاؤں میں

چل انشاء اپنے گاؤں میں 


چل انشاء اپنے گاؤں میں 
یہاں الجھے الجھے روپ بہت 

پر اصلی کم ، بہروپ بہت 
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا 

جہاں سایہ کم ہو ، دھوپ بہت 
چل انشاء اپنے گاؤں میں 

بیٹھیں گے سکھ کی چھاؤں میں 
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے ؟

یہاں ہر اک بات نرالی ہے 
اس دیس بسیرا مت کرنا 

یہاں مفلس ہونا گالی ہے 
چل انشاء اپنے گاؤں میں

 (ابن انشاء )


Friday, February 15, 2013

Sufi Ghulam Mustafa Tabassum

Sufi Ghulam Mustafa Tabassum 


This article was published in Daily Jang dated 15th of February, 2013




Monday, February 4, 2013