جو اتر کر زینہ شام سے
جو اتر کر زینہ شام سے تیری چشم خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ مرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ مرے گماں میں تھے وو تیری زبان پر آ گے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستان جسے تم ہنسی میں اڑا گے
وہ چراغ جاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گۓ
وہ تھا چاند چشم وصال کا کہ روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گۓ
یہ جو بندگان نیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گۓ
تیری بےرخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گۓ
تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرر رنگ اجڑ گیا
میرے خواہشوں کے غبار میں میرے ماہ و سال وفا گۓ
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشت خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گۓ
میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گۓ
No comments:
Post a Comment