Tuesday, October 30, 2012

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض 


راتوں کی خموشی میں 
چھپ کر کبھی رو لینا 
مجبور جوانی کے 
ملبوس کو دھو لینا 
جذبات کی وسعت کو 
سجدوں سے بسا لینا 
بھولی ہوئی یادوں کو 
سینے سے لگا لینا 
                                                (فیض احمد فیض )

Sunday, October 21, 2012

تاریخ نے پوچھا| Urdu Poetry

تاریخ نے پوچھا

Tareekh nay poocha..... by .A.S.H.
Tareekh nay poocha....., a photo by .A.S.H. on Flickr.


تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے
شاہی نے کہا یہ میری ہے اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر تخت بچھے ایوان سجے
گھڑیال بجے دربار لگے
تلوار چلی
اور خون بہے
انسان لڑے انسان مرے
دنیا نے آخر شاہی کو پہچان لیا پہچان لیا

تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے
دولت نے کہا یہ میری ہے اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر بینک کھلے بازار جمے
بازار جمے بیوپار بڑھے
انسان لٹے انسان بکے
آرام اڑے سب چیخ اٹھے
دنیا نے آخر دولت کو پہچان لیا پہچان لیا

تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے
مومن نے کہا الله کی ہے اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر قلب و نظر کی صبح ہوئ
اک نور کی لۓ سی پھوٹ بہی
ایک ایک خودی کی آنکھ کھلی
فطرت کی صدا پھر گونج اٹھی
دنیا نے آخر آقا کو پہچان لیا پہچان لیا


زندگی تیرا اعتبار نہیں

زندگی تیرا اعتبار نہیں


زندگی تیرا اعتبار نہیں
اس لئے ان کو تجھ سےپیار نہیں

جب وطن تو نے ان سے جان چاہی
ان سے پھر موت نے اماں چاہی

جان  دے کر بھی اس کو کم سمجھیں
تیرے غم کو یہ اپنا غم سمجھیں

یہ زمین، ذات، پانچ دریائ
مقصدیت  میں جیسے  یکتائی

برف زاروں کو یہ سجاتے ہیں
ایسے دریا پہ چل کرآتے ہیں

پہلی بارش کی بوند کہلائیں
یہ ہواؤں کی گونج بن جائیں

 یہ کہ صحرا میں چھاؤں بانٹے ہیں
یہ سمندر کے راز جانتے ہیں

جب بھی دریا ہے  گھر  اتر آیا
کام پھر ان کا ہی ہنر آیا

رات کو جب زلزلے  سے  کانپ اٹھے
ان کے پھر حوصلے سے ہانپ اٹھے

مرے سورج کو رات کیا دے گا
وسایل سے مات کیا دے گا

تو نے دیواریں بس بنائی ہیں
ہم نے وہ جسم سے اٹھائی ہیں

اپنے اپنے محاذ پر قائم
اے وطن تو رہے سدا دائم

اے وطن اب تو مسکرایا ہے
ہم نے پرچم تیرا اٹھایا ہے


Friday, October 19, 2012

ابھی سورج نہیں ڈوبا- Urdu Poetry

ابھی سورج نہیں ڈوبا


ابھی سورج نہیں ڈوبا ذرا سی شام ہونے  دے
میں خود ہی لوٹ جاؤں گا ذرا بدنام ہونے دے

مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو کیوں
میں خود ہو جاؤں گا بدنام ذرا سا نام ہونے دے

ابھی مجھ کو نہیں کرنا اعتراف   شکست
میں سب تسلیم کرتا ہوں یہ چرچا عام ہونے دے

میری ہستی انمول -پھر بھی بک نہیں سکتا
وفائیں بیچ لینا پر ذرا نیلام  ہونے دے

سفر کے آغاز میں کیوں حوصلہ توڑ بیٹھے ہو
تم خود ہی جیت جو گے ذرا انجام ہونے دے

ابھی سورج نہیں ڈوبا ذرا سی شام ہونے  دے


Wednesday, October 17, 2012

دو اندھی لڑکیاں

دو اندھی لڑکیاں 


یہ زندہ  اور مردہ آنکھیں کلیوں کے نرم بدن جیسی 
خاشاک و درخشاں تاروں کی گرتی اٹھی چلمن جیسی 

یہ آنکھیں لعل و جواہر تھیں ہیرے موتی کندن جیسی 
سب اپنا نور لٹا کر  اب خالی ہیں مرے دامن جیسی 

اک دست ستم کی جنبش سے بے نور ہوئیں روزن جیسی 
رقصاں ہے اب ان میں خاک اجل اک برق زدہ خون جیسی 

جلاد صفت تھیں وہ نظریں جو ان کا لہو سب چوس گئیں 
کچھ حرص زدہ کرگس جیسی ، کچھ خونی زاغ و زغن جیسی 


Tuesday, October 16, 2012

زہرا نگاہ | گل زمینہ

زہرا نگاہ | گل زمینہ 

                                     (زہرا نگاہ )


Monday, October 15, 2012

محسن نقوی | بے حرف ہاتھوں کی تحریر

محسن نقوی | بے حرف ہاتھوں کی تحریر


آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدہِ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے موءقلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم - پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہناگئے - جتنے معصوم رخسار
مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئیے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لئیے، مسکرائیں گے رنج و غم
دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئیے
طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لئیے
آؤ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئیے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم
آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

                                     (محسن نقوی)

Sunday, October 14, 2012

احفاظ الرحمان | پھول تیرے ہیں

 احفاظ الرحمان | پھول تیرے ہیں 



Friday, October 12, 2012

مصطفیٰ زیدی | کوئی ہم نفس نہیں

مصطفیٰ زیدی | کوئی ہم نفس نہیں


کوئی ہم نفس نہیں کوئی رازدان نہیں ہے
فقط اک دل تھا اپنا سو وہ مہربان نہیں ہے

کسی اور غم میں اتنی خلشیں نہاں نہیں ہے
میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو

میری مجلسی تبسّم میرا ترجمان نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکارو

بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سایبان نہیں ہے
انہی پتھروں پے چل کے آ سکو تو آنا

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

                        (مصطفیٰ زیدی)

Wednesday, October 10, 2012

بڑا دشوار ہوتا ہے


بڑا دشوار ہوتا ہے


بڑا دشوار ہوتا ہے

ذرا سا فیصلہ کرنا

کہ جیون کہانی کو

کہاں سے یاد رکھنا ہے

کہاں سے بھول جانا ہے

اسے کتنا بتانا ہے

اسے کتنا چھپانا ہے

کہاں رو رو کے ہنسنا ہے

کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے

کہاں آواز دینا ہے

کہاں خاموش رہنا ہے

کہاں رستہ بدلنا ہے

کہاں سے لوٹ آنا ہے

بڑا دشوار ہوتا ہے

ذرا سا فیصلہ کرنا

Tuesday, October 9, 2012

اقبال | دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

اقبال | دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب 


دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

شورش سے بھاگتا  ہوں، دل ڈھونڈا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو

آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو

گل  کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سہ  گویا ، مجھکو جہاں نما ہو

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے  سے دل میں اسکے کٹھکا نہ کچھ میرا  ہو

ہو دلفریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ  کے دیکھتا  ہو

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آینہ دیکھتا ہو

راتوں کو جلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید انکی میرا  ٹوٹا ہوا دیہ ہو

پچھلے پہر کی کوئل وہ  صبح کی موذان
میں اسکا ہمنوا ہوں وہ میری ہمنوا ہو

کانوں پے ہو نہ مرے دیر و حرم کا احسان !
روزن ہی جھونپڑے کا مجھکو سازنما ہو

پھولوں  کو آے جسدم شبنم وضو کرانے
رونا میرا وضو ہو نالہ میری دعا  ہو

اس خامشی  میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

ہر دردمند دل کو رونا میرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

علامہ محمّد اقبال

Sunday, October 7, 2012

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں


وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑروں کے ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی  

دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی
جلے ہوے خیموں  میں سہمی ہوئی روشنی

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں
ایسے ہر منظر کے بعد اک سناٹا چھا جاتا ہے

یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے
سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج  کا لہجہ ہے

یہ کوئی آج کی بات نہیں بہت پرانا قصّہ ہے
ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں 

                          (افتخار عارف)

Saturday, October 6, 2012


سلسلہ روز و شب

سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات

سلسلہ روز و شب  تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائی صفات

سلسلہ روز و شب  ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات

                                  (علامہ اقبال)

Friday, October 5, 2012


خوابوں کے ساحل


ابھی کچھ دن لگیں گے

دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک

سب سرو و صنوبر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

تھکے ہارے ہوے خوابوں کے ساحل پر

کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر
بنتے بنتے رہ گیا ہے

وہ اک گھر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

مگر اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں
بس اک دن دل کی لوح منتظر پر
اچانک

رات اترے گی
میری بے نور آنکھوں کے خزانے میں چھپے
ہر خواب کی تکمیل کر دے گی

مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی
اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا
اک ایسا خواب جس کے دامن صد چاک میں کوئی مبارک

کوئی روشن دن نہیں تھا
ابھی کچھ دن لگیں گے


                              (افتخار عارف)

It'll be a while...

to forget the sullification of a city such as the heart's,
to forget all the big and small things of the desired world (of the world that I wanted to have, that I thought of having). 
Somewhere near the shore of all dead and lost dreams, 
hope tried to make a small house... 
it'll be a while to forget that house. 
But how much time is left now anyway? 
One night, all of a sudden,
all my unfulfilled dreams will be realized, 
but then I'll become a dream (meaning I would be gone - maybe as in dead).
An un dreamable dream. 
A dream that didn't get anything... 
though its actualization was tried, 
it wasn't meant to become real. 
It just wasn't meant to get even a moment of blessings and light (of hope))



Thursday, October 4, 2012

عالم تاب تشنہ

عالم تاب تشنہ

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا

                                (عالم تاب تشنہ )

Wednesday, October 3, 2012

بے خودی بے سبب نہیں غالب


بے خودی بے سبب نہیں غالب


بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری  ہے

دل و  مزغاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے

پھر اسی بے وفا پے مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری  ہے

پھر دیا پارہ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے

بے خودی بے سبب نہیں غالب

پھر ہوے ہیں گواہ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے

پھر کچھ اک دل کو بے قراری  ہے
سینا جویا زخم کاری ہے

                                              (غالب )