دو اندھی لڑکیاں
یہ زندہ اور مردہ آنکھیں کلیوں کے نرم بدن جیسی
خاشاک و درخشاں تاروں کی گرتی اٹھی چلمن جیسی
یہ آنکھیں لعل و جواہر تھیں ہیرے موتی کندن جیسی
سب اپنا نور لٹا کر اب خالی ہیں مرے دامن جیسی
اک دست ستم کی جنبش سے بے نور ہوئیں روزن جیسی
رقصاں ہے اب ان میں خاک اجل اک برق زدہ خون جیسی
جلاد صفت تھیں وہ نظریں جو ان کا لہو سب چوس گئیں
کچھ حرص زدہ کرگس جیسی ، کچھ خونی زاغ و زغن جیسی
No comments:
Post a Comment