بے خودی بے سبب نہیں غالب
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
دل و مزغاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
پھر اسی بے وفا پے مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
پھر دیا پارہ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
پھر ہوے ہیں گواہ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینا جویا زخم کاری ہے
(غالب )
No comments:
Post a Comment