Sunday, October 7, 2012

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں


وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑروں کے ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی  

دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی
جلے ہوے خیموں  میں سہمی ہوئی روشنی

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں
ایسے ہر منظر کے بعد اک سناٹا چھا جاتا ہے

یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے
سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج  کا لہجہ ہے

یہ کوئی آج کی بات نہیں بہت پرانا قصّہ ہے
ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں 

                          (افتخار عارف)

No comments:

Post a Comment