Sunday, October 21, 2012

زندگی تیرا اعتبار نہیں

زندگی تیرا اعتبار نہیں


زندگی تیرا اعتبار نہیں
اس لئے ان کو تجھ سےپیار نہیں

جب وطن تو نے ان سے جان چاہی
ان سے پھر موت نے اماں چاہی

جان  دے کر بھی اس کو کم سمجھیں
تیرے غم کو یہ اپنا غم سمجھیں

یہ زمین، ذات، پانچ دریائ
مقصدیت  میں جیسے  یکتائی

برف زاروں کو یہ سجاتے ہیں
ایسے دریا پہ چل کرآتے ہیں

پہلی بارش کی بوند کہلائیں
یہ ہواؤں کی گونج بن جائیں

 یہ کہ صحرا میں چھاؤں بانٹے ہیں
یہ سمندر کے راز جانتے ہیں

جب بھی دریا ہے  گھر  اتر آیا
کام پھر ان کا ہی ہنر آیا

رات کو جب زلزلے  سے  کانپ اٹھے
ان کے پھر حوصلے سے ہانپ اٹھے

مرے سورج کو رات کیا دے گا
وسایل سے مات کیا دے گا

تو نے دیواریں بس بنائی ہیں
ہم نے وہ جسم سے اٹھائی ہیں

اپنے اپنے محاذ پر قائم
اے وطن تو رہے سدا دائم

اے وطن اب تو مسکرایا ہے
ہم نے پرچم تیرا اٹھایا ہے


No comments:

Post a Comment