زندگی تیرا اعتبار نہیں
زندگی تیرا اعتبار نہیں
اس لئے ان کو تجھ سےپیار نہیں
جب وطن تو نے ان سے جان چاہی
ان سے پھر موت نے اماں چاہی
جان دے کر بھی اس کو کم سمجھیں
تیرے غم کو یہ اپنا غم سمجھیں
یہ زمین، ذات، پانچ دریائ
مقصدیت میں جیسے یکتائی
برف زاروں کو یہ سجاتے ہیں
ایسے دریا پہ چل کرآتے ہیں
پہلی بارش کی بوند کہلائیں
یہ ہواؤں کی گونج بن جائیں
یہ کہ صحرا میں چھاؤں بانٹے ہیں
یہ سمندر کے راز جانتے ہیں
جب بھی دریا ہے گھر اتر آیا
کام پھر ان کا ہی ہنر آیا
رات کو جب زلزلے سے کانپ اٹھے
ان کے پھر حوصلے سے ہانپ اٹھے
مرے سورج کو رات کیا دے گا
وسایل سے مات کیا دے گا
تو نے دیواریں بس بنائی ہیں
ہم نے وہ جسم سے اٹھائی ہیں
اپنے اپنے محاذ پر قائم
اے وطن تو رہے سدا دائم
اے وطن اب تو مسکرایا ہے
ہم نے پرچم تیرا اٹھایا ہے
No comments:
Post a Comment