Saturday, September 29, 2012

Family | The best part of life

Via Flickr:
Family, there is nothing more important. They are the one who show up when we are in trouble. The ones who push us to succeed.The ones who help keep us our secrets. But what of those who have no family to rely on. What happens to those poor souls. Who have no loved one to help them in the hour of need.
Well,most learned to walk life's road by themselves. But a sad few of us simply stop trying.

Join me on FACEBOOK

دیوانہ 


دیوانہ بے خودی میں بڑی بات کہہ گیا 
ہجر کی گھڑی کو ملاقات کہہ گیا 

پہلا ترب شناس بڑا سنگدل تھا اے دوست 
چیخیں تھی جن کو جھوم کر نغمات کہہ گیا 

Tuesday, September 25, 2012

پھول مرجھا گۓ ہیں سارے

پھول مرجھا گۓ ہیں سارے 


پھول مرجھا گۓ ہیں سارے 
تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو 
شمعیں بے نور ہو گئ ہیں 
آینے چور ہو گۓ ہیں 
ساز سب بج کے کھو گۓ ہیں 
پا لئیں بجھ کے سو گئی ہیں 
اور ان بادلوں کے پیچھے 
دور اس رات کا دلارا 
درد کا ستارہ 
ٹمٹما رہا ہے 
جھنجنا رہا ہے 
مسکرا رہا ہے 


نہیں ایسا نہیں ہونے دینا

نہیں ایسا نہیں ہونے دینا 



اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو 
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی 

اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کہ جو 
اس سے پہلے میری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی 

پھر وہی آگ در آئ ہے مری گلیوں میں 
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے 

پھر سے "تو کون ہے ؟"، "میں کون ہوں ؟" آپس میں سوال 
پھر وہی سوچ میان من و تو پھیلی ہے 

مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے 
پر کہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا 

آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے 
مرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا 

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا 
پھر ہوئی عام وہی اہل ریا کی باتیں 

نعرہ حب وطن ، مال تجارت کی طرح 
جنس ارزاں کی طرح ، دین خدا کی باتیں 

اس سےپہلے  بھی تو ایسی  ہی گھڑی آئ تھی 
صبح وحشت کی طرح ، شام غریباں کی طرح 

اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے 
شیشہ دل کی طرح ، آئینہ جاں کی طرح 

پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دیے 
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی ردا 

صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گی 
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ  گیا انگار حنا 

 دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا 
شاخ بازو کے لیے زلف کا بادل رویا 

مثل پیراہن گل ، پھر سے بدن چاک ہوے 
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر 

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم 
نوک دشناں سے کھنچی تھی میری مٹی پہ لکیر 

آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا 
اے میرے سوختہ جانو، مرے پیارے لوگو 

اب کے گر زلزلے آۓ تو قیامت ہو گی 
مرے دل گیر، مرے درد کے مارے لوگو 

کسی غاصب ، کسی ظالم ، کسی قاتل کے لئے 
خود کو تقسیم نہ کرنا ، مرے سارے لوگو 

                                                   (احمد فراز )


Sunday, September 23, 2012

اب نہ لہکے گی

اب نہ لہکے گی 


اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حنا 
فصل گل آۓ گی نمرود کے انگار لئے 

اب نہ برسات میں برسے گی گہر کی برکھا 
ابر آۓ گا خس و خار کے انبار لئے 

میرا مسلک بھی نیا راہ طریقت بھی نئی 
میرے قانوں بھی نۓ میری شریعت بھی نئی 

اب فقیہان حرم دست صنم چومیں گے 
سرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے 

فرش پر آج در صدق و صفا بند ہوا 
عرش پر آج ہر اک باب دعا بند ہوا 


Thursday, September 20, 2012

دین 


دین کی آڑ میں حل ہونے لگا ہو نہ سکا 
ساحل روم کی زرکار سیاست کا سوال 

اور یوں ارض مقدس کے ہر اک کوچے میں 
خون انسان میں نہاتے تھے صلیب اور ہلال 

عہد وسطیٰ کے خداوند ، وہ شاہان فرہنگ 
دین کو تخت کا پابند بنا ڈالا تھا 

حفظ جاگیر کی خاطر کئی  انسانوں کو 
نام تصلیت پہ شعلوں میں جلا ڈالا تھا 

دیں مجھ تک رہا محدود ، تو سینے کا چراغ 
دین تنظیم میں آ جاۓ تو الجھا ہوا جال 

اور اگر شاہ کے دربار میں آ کر جھک جاۓ 
کبھی خوں رنگ بجھارت ، کبھی تاریک سوال 


Wednesday, September 19, 2012

مصلوب آدمی 


یہ ہے روح انسان 
برسہا برس سے 
کڑی دھوپ میں سر برہنہ کھڑا ہے 
اسے اک نمد پوش واعظ نے 
مژدہ سنایا 
اگر تو شرر بار موسم کو 
اپنا مقدر سمجھ لے 
تو میں آخرت کے خیاباں میں 
اک موتیوں سے جڑا سائباں 
بخش دوں گا تجھے 
مگر یہ تمازت زدہ آدمی 
جب شرر بار موسم کو 
اپنا مقدر سمجھنے لگا 
تو کڑی دھوپ پہلے سے افزوں ہوئی 
شدت مہر سوزاں  سوا ہو گئی 
موتیوں سے جڑے سائباں  کی تمنا 
ہوا ہو گئی 
اسے ایک آتش بیان لفظ گر 
نے کہا 
تو اگر میرے منشور کو 
حرف آخر سمجھ لے 
تو میں تجھ کو ایک قصر گل بار 
اور چتر زرکار دوں گا 
کہ تو زندگی بھر 
سکون بخش سایوں کی ٹھنڈک 
سے مسرور ہو 
مگر جب یہ حدت زدہ آدمی 
لفظ گر کے تہی دست منشور کو 
حرف آخر سمجھنے لگا 
تو وہیں قصر گل بار اور چترز رکار  کا 
سب بھرم کھل گیا 
لفظ گر چل دیا 
 اور شعاعوں کے تیروں نے 
اس کا بدن چھید ڈالا 
اس کو ظل الہ 
دین کے خلد گر 
بے ہنر  راہبر 
جھوٹے وعدوں کے 
ملبوس دیتے رہے 
اس کو ساۓ کا مژدہ سنا کر 
ہر اک دور میں لوٹ لیتے رہے 
اور یہ بے روح انسان 
جو صدیوں سے کرنوں کی سولی پہ 
مصلوب تھا 
اب بھی مصلوب ہے 

٢ - عشق و انقلاب - ظہیر کاشمیری 


آگ کے شعلے ، دھماکے ، موت ، ہر چہ باد ا باد 
دیکھ فسطائی درندوں کا جنون برتری 

آج ایوان کہن دھنکا پڑا ہے خاک پر 
اور ایوان کہن کا ہے یہ سنگ آخری 

کوند جاؤ ..... سنگ آخر کا نشاں مٹ جاۓ گا 
یہ جہان کہنہ اب زیر و زبر ہونے کو ہے 

وہ افق پر کچھ نئی سرگوشیاں ہونے لگیں 
ظلم کے ساۓ پگھلتے ہیں سحر ہونے کو ہے 

                                                  (ظہیر کاشمیری )                 

Tuesday, September 18, 2012

آج کے نام

آج کے نام 


آج کے نام 
اور 
آج کے غم کے نام 

آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا 
زرد پتوں کا بن 
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے 

درد کی انجمن جو مرا دیس ہے 
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام 
کرم خوردہ دلوں ور زبانوں کے نام 

پوسٹ مینوں کے نام 
تانگے والوں کے نام 
ریل بانوں کے نام 

کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام 
بادشاہ جہاں ، والی ما سوا ، نائب الله فی الارض 
دہقاں کے نام 

جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گۓ 
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گۓ 
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے 

دوسری مالیہ کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے 
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے 
دھجیاں ہو گئ ہے 

ان دکھی ماؤں کے نام 
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور 
نیند کی مار کھاۓ هوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں 

دکھ بتاتے نہیں 
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں 
ان حسینوں کے نام 

جن کی آنکھوں کے گل 
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے 
مرجھا گۓ ہیں 

ان بیاہتوں کے نام 
جن کے بدن 
بے محبّت ریا کار سیخوں پہ سج کے اکتا گۓ ہیں 

بیواؤں کے نام 
کڑیوں اور گلیوں ، محلوں کے نام 
جن کی ناپاک خاشاک سے، چاند راتوں 

کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو 
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا 
آنچلوں کی حنا 

چوڑیوں کی کھنک 
کاکلوں کی مہک 
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو 

پڑھنے والوں کے نام 
وہ جو اصحاب طبل و علم 
کے دروں پر کتاب اور قلم 

کا تقاضا لئے ، ہاتھ پھیلاۓ 
پہنچے ، مگر لوٹ کر گھر نہ آیے 
وہ معصوم جو بھولپن میں 

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن 
لے کے پہنچے جہاں 
بٹ رہے تھے ، گھٹا ٹوپ ، بے انت راتوں کے ساۓ 

ان اسیروں کے نام 
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر 
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں 

جل جل کے انجم نما ہو گۓ ہیں آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام 
وہ جو خوشبوۓ گل کی طرح 
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گۓ ہیں 
                    (فیض احمد فیض )

١ - عشق و انقلاب - ظہیر کاشمیری


ابن آدم کی حمیت نے سنایا پیغام 
اب نہ دربار میں بکنے کی اجازت ہو گی 

کوئی فرعون اگر تیغ پہ اتراۓ گا 
آشتی کا یہ تقاضا ہے ، بغاوت ہو گی 

                                       (ظہیر کاشمیری )

لوگ 


جس دیوار کو خون پلا کر سر سے اونچا کر گۓ لوگ 
اس دیوار کے نیچے آ کر اک اک کر کے مر گۓ لوگ 

اک یہ دن ہیں ، ساحل پر بھی خوف مرگ مسلط ہے 
اک وہ دن تھے ساحل چھوڑ کے طوفانوں میں اتر گۓ لوگ 

فصل خزاں میں کچھ بھی نہ تھا پر رشتوں کی پہچان تو تھی 
فصل بہار میں سوکھے پتوں کی مانند بکھر گۓ لوگ 

ہر بستی میں شور بپا ہے پھر بھی اک سناٹا ہے 
یوں لگتا ہے جیتے جی ہی کوچ یہاں سے کر گۓ لوگ 

سونے کے ہر ڈھیر کے نیچے انسانوں کی لاشیں 
فصلوں کے انبار لگے ہیں پھر بھی بھوک سے مر گۓ  لوگ 

جس دھرتی کی سرسبزی پر فطرت بھی خود ناز کرے 
اس دھرتی پر کاسہ تھامے بھٹک رہے ہیں در در لوگ 

راتیں صبح نو کی خاطر جاگ جاگ کر کاٹی تھیں 
پھوٹی جب سورج کی جوالا اپنی ذات سے ڈر گۓ لوگ 


Monday, September 17, 2012

فلسطین 


دور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں 
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں 

جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم 
لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطین کا علم 

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد 
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد 


در قاتل 


بہت اچھا ہوا مجھ کو در قاتل پہ لے آۓ 
 مجھے منزل پہ آنا تھا مجھے منزل پہ لے آۓ

یہ کیا کم ہے کہ شامل میں بھی ہوں ، ان خوش نصیبوں میں 
نشان خنجر یاراں ، جو اپنے دل پہ لے آۓ

ڈبو کر کشتیاں اہل جنوں کی وسط دریا میں 
خرد والے خرد کی سازشیں ساحل پہ لے آۓ

وہ  جن کو تمکنت کے چرخ  پر میں نے بٹھایا تھا 
وہی مجھ کو زمین کوچہ قاتل پہ لے آۓ

بظاھر کس قدر سادہ تھے ارباب جفا پیشہ 
بھروسے ہی بھروسے میں قیامت دل پہ لے آۓ

کہاں کا جرم کیسی داد خواہی واقعہ یہ آۓ
مجھے منصف پکڑ کر خود در قاتل پہ لے آۓ

کھلے بندوں  وہی کرتے ہیں دعویٰ ناخدائی کا 
جو اپنے ساتھ طوفان بلا ساحل پہ لے آۓ

خود اپنے ہاتھ سے برباد کی ترکیب مے خانہ 
مگر الزام سارا ساقی محفل پہ لے آۓ


عرض وطن - نہ مکمل 


میں جہاں پر بھی گیا عرض وطن 

تری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے 
تری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے 

تری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی 
ترے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گی 

سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا 
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا 


ایسے نہیں ہوتا 


ستم سکھلاۓ گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا 
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا 

گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں 
مرے قاتل ! حساب خون بہا ایسے نہیں ہوتا 

جہان دل میں کام آتی ہیں ، تدبیریں نہ تعزیریں 
یہاں  پیمان  تسلیم و رضا  ایسے نہیں ہوتا 

ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے 
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا 

رواں ہے نبض دوراں ، گردشوں میں آسماں سارے 
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ، ایسے نہیں ہوتا 


Sunday, September 16, 2012

بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے 


بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے 
اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے 

دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا 
اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے 

ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے 
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے 

دل میں وہ آگ فروزاں ہے ،عدو جس کا بیاں 
کوئی مضموں کسی عنواں نہیں کرنے دیتے 

جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے 
اب وہ کچھ کہ میری جاں نہیں کرنے دیتے 


مسلے پھول 


پھول مسلے گۓ فرش گلزار  پر 
رنگ  چھڑکا گیا تختہ دار پر 

بزم برپا کرے جس کو منظور ہو 
دعوت رقص ، تلوار کی دھار پر 

دعوت بیعت شہ پہ ملزم بنا 
کوئی اقرار پر ، کوئی انکار پر 


Saturday, September 15, 2012

Important Announcement 


The poetry published here is not mine. It is from the books of famous poets. Kindly note that


  • Any poetry without any poet name is because i do not know the name. So if you know the name of the poet do inform me i will incorporate it in the post.
  • If there is any typing error in the poetry please inform me.
All the work that is my intellectual property will be published with my name. I belive on original work and will post every other material with reference InshaALLAH.
Your suggestions are always an asset for me.


Regards
Hadeed Sher


سوختہ سامان - آغاز سفر 


دشت میں سوختہ سامانوں پہ رات آئی ہے 
غم کے سںسان بیابانوں پہ رات  آئی  ہے 

نور عرفان کے دیوانوں پہ رات  آئی   ہے 
شمع ایمان کے پروانوں پہ رات  آئی  ہے 

بیت شببر پہ ظلمت کی گھٹا چھائی ہے 
درد سا درد ہے تنہائی سی تنہائی ہے 

ایسی تنہائی کہ پیارے دیکھے نہیں جاتے 
آنکھ سے آنکھ کے تارے نہیں دیکھے جاتے