Wednesday, September 19, 2012

مصلوب آدمی 


یہ ہے روح انسان 
برسہا برس سے 
کڑی دھوپ میں سر برہنہ کھڑا ہے 
اسے اک نمد پوش واعظ نے 
مژدہ سنایا 
اگر تو شرر بار موسم کو 
اپنا مقدر سمجھ لے 
تو میں آخرت کے خیاباں میں 
اک موتیوں سے جڑا سائباں 
بخش دوں گا تجھے 
مگر یہ تمازت زدہ آدمی 
جب شرر بار موسم کو 
اپنا مقدر سمجھنے لگا 
تو کڑی دھوپ پہلے سے افزوں ہوئی 
شدت مہر سوزاں  سوا ہو گئی 
موتیوں سے جڑے سائباں  کی تمنا 
ہوا ہو گئی 
اسے ایک آتش بیان لفظ گر 
نے کہا 
تو اگر میرے منشور کو 
حرف آخر سمجھ لے 
تو میں تجھ کو ایک قصر گل بار 
اور چتر زرکار دوں گا 
کہ تو زندگی بھر 
سکون بخش سایوں کی ٹھنڈک 
سے مسرور ہو 
مگر جب یہ حدت زدہ آدمی 
لفظ گر کے تہی دست منشور کو 
حرف آخر سمجھنے لگا 
تو وہیں قصر گل بار اور چترز رکار  کا 
سب بھرم کھل گیا 
لفظ گر چل دیا 
 اور شعاعوں کے تیروں نے 
اس کا بدن چھید ڈالا 
اس کو ظل الہ 
دین کے خلد گر 
بے ہنر  راہبر 
جھوٹے وعدوں کے 
ملبوس دیتے رہے 
اس کو ساۓ کا مژدہ سنا کر 
ہر اک دور میں لوٹ لیتے رہے 
اور یہ بے روح انسان 
جو صدیوں سے کرنوں کی سولی پہ 
مصلوب تھا 
اب بھی مصلوب ہے 

No comments:

Post a Comment