مصلوب آدمی
یہ ہے روح انسان
برسہا برس سے
کڑی دھوپ میں سر برہنہ کھڑا ہے
اسے اک نمد پوش واعظ نے
مژدہ سنایا
اگر تو شرر بار موسم کو
اپنا مقدر سمجھ لے
تو میں آخرت کے خیاباں میں
اک موتیوں سے جڑا سائباں
بخش دوں گا تجھے
مگر یہ تمازت زدہ آدمی
جب شرر بار موسم کو
اپنا مقدر سمجھنے لگا
تو کڑی دھوپ پہلے سے افزوں ہوئی
شدت مہر سوزاں سوا ہو گئی
موتیوں سے جڑے سائباں کی تمنا
ہوا ہو گئی
اسے ایک آتش بیان لفظ گر
نے کہا
تو اگر میرے منشور کو
حرف آخر سمجھ لے
تو میں تجھ کو ایک قصر گل بار
اور چتر زرکار دوں گا
کہ تو زندگی بھر
سکون بخش سایوں کی ٹھنڈک
سے مسرور ہو
مگر جب یہ حدت زدہ آدمی
لفظ گر کے تہی دست منشور کو
حرف آخر سمجھنے لگا
تو وہیں قصر گل بار اور چترز رکار کا
سب بھرم کھل گیا
لفظ گر چل دیا
اور شعاعوں کے تیروں نے
اس کا بدن چھید ڈالا
اس کو ظل الہ
دین کے خلد گر
بے ہنر راہبر
جھوٹے وعدوں کے
ملبوس دیتے رہے
اس کو ساۓ کا مژدہ سنا کر
ہر اک دور میں لوٹ لیتے رہے
اور یہ بے روح انسان
جو صدیوں سے کرنوں کی سولی پہ
مصلوب تھا
اب بھی مصلوب ہے
No comments:
Post a Comment