نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کہ جو
اس سے پہلے میری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئ ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے "تو کون ہے ؟"، "میں کون ہوں ؟" آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میان من و تو پھیلی ہے
مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر کہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
مرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئی عام وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن ، مال تجارت کی طرح
جنس ارزاں کی طرح ، دین خدا کی باتیں
اس سےپہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئ تھی
صبح وحشت کی طرح ، شام غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمان وفا ٹوٹے تھے
شیشہ دل کی طرح ،
آئینہ جاں کی طرح
پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دیے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی ردا
صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگار حنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخ بازو کے لیے زلف کا بادل رویا
مثل پیراہن گل ، پھر سے بدن چاک ہوے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوک دشناں سے کھنچی تھی میری مٹی پہ لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میرے سوختہ جانو، مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آۓ تو قیامت ہو گی
مرے دل گیر، مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب ، کسی ظالم ، کسی قاتل کے لئے
خود کو تقسیم نہ کرنا ، مرے سارے لوگو
(احمد فراز )
No comments:
Post a Comment