Monday, September 17, 2012

ایسے نہیں ہوتا 


ستم سکھلاۓ گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا 
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا 

گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں 
مرے قاتل ! حساب خون بہا ایسے نہیں ہوتا 

جہان دل میں کام آتی ہیں ، تدبیریں نہ تعزیریں 
یہاں  پیمان  تسلیم و رضا  ایسے نہیں ہوتا 

ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے 
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا 

رواں ہے نبض دوراں ، گردشوں میں آسماں سارے 
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ، ایسے نہیں ہوتا 


No comments:

Post a Comment