لوگ
جس دیوار کو خون پلا کر سر سے اونچا کر گۓ لوگ
اس دیوار کے نیچے آ کر اک اک کر کے مر گۓ لوگ
اک یہ دن ہیں ، ساحل پر بھی خوف مرگ مسلط ہے
اک وہ دن تھے ساحل چھوڑ کے طوفانوں میں اتر گۓ لوگ
فصل خزاں میں کچھ بھی نہ تھا پر رشتوں کی پہچان تو تھی
فصل بہار میں سوکھے پتوں کی مانند بکھر گۓ لوگ
ہر بستی میں شور بپا ہے پھر بھی اک سناٹا ہے
یوں لگتا ہے جیتے جی ہی کوچ یہاں سے کر گۓ لوگ
سونے کے ہر ڈھیر کے نیچے انسانوں کی لاشیں
فصلوں کے انبار لگے ہیں پھر بھی بھوک سے مر گۓ لوگ
جس دھرتی کی سرسبزی پر فطرت بھی خود ناز کرے
اس دھرتی پر کاسہ تھامے بھٹک رہے ہیں در در لوگ
راتیں صبح نو کی خاطر جاگ جاگ کر کاٹی تھیں
پھوٹی جب سورج کی جوالا اپنی ذات سے ڈر گۓ لوگ
No comments:
Post a Comment