Monday, September 17, 2012

در قاتل 


بہت اچھا ہوا مجھ کو در قاتل پہ لے آۓ 
 مجھے منزل پہ آنا تھا مجھے منزل پہ لے آۓ

یہ کیا کم ہے کہ شامل میں بھی ہوں ، ان خوش نصیبوں میں 
نشان خنجر یاراں ، جو اپنے دل پہ لے آۓ

ڈبو کر کشتیاں اہل جنوں کی وسط دریا میں 
خرد والے خرد کی سازشیں ساحل پہ لے آۓ

وہ  جن کو تمکنت کے چرخ  پر میں نے بٹھایا تھا 
وہی مجھ کو زمین کوچہ قاتل پہ لے آۓ

بظاھر کس قدر سادہ تھے ارباب جفا پیشہ 
بھروسے ہی بھروسے میں قیامت دل پہ لے آۓ

کہاں کا جرم کیسی داد خواہی واقعہ یہ آۓ
مجھے منصف پکڑ کر خود در قاتل پہ لے آۓ

کھلے بندوں  وہی کرتے ہیں دعویٰ ناخدائی کا 
جو اپنے ساتھ طوفان بلا ساحل پہ لے آۓ

خود اپنے ہاتھ سے برباد کی ترکیب مے خانہ 
مگر الزام سارا ساقی محفل پہ لے آۓ


No comments:

Post a Comment