اقبال | دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو
آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سہ گویا ، مجھکو جہاں نما ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اسکے کٹھکا نہ کچھ میرا ہو
ہو دلفریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آینہ دیکھتا ہو
راتوں کو جلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید انکی میرا ٹوٹا ہوا دیہ ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذان
میں اسکا ہمنوا ہوں وہ میری ہمنوا ہو
کانوں پے ہو نہ مرے دیر و حرم کا احسان !
روزن ہی جھونپڑے کا مجھکو سازنما ہو
پھولوں کو آے جسدم شبنم وضو کرانے
رونا میرا وضو ہو نالہ میری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا میرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
No comments:
Post a Comment