گری ہوئی ٹیم کو کھڑا کرنےوالا کپتان
مصباح الحق نے اس وقت ٹیم کی کپتانی سنبھالی جب ٹیم کےکپتان اور دو اہم بولر فکسنگ کےجرم میں جیل جا چکے تھے |
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا کےخلاف تازہ ترین دو انتہائی زبردست کامیابیوں نے بارہ سال قبل اسی متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا ہی کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی یاد دلا دی جس میں وہ شارجہ ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں انسٹھ اور ترپن رنز پر ڈھیر ہوئی تھی۔اس ٹیسٹ میں وقاریونس پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے جبکہ مصباح الحق اور یونس خان اس ٹیم کا حصہ تھے۔
آج یہ تینوں ایک فاتح ٹیم کے حصے کے طور پر بالکل مختلف روپ میں دنیا کے سامنے کھڑے ہیں۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم یقیناً پاکستانی کرکٹرز کے ٹیم ورک کے نتیجے میں کٹھ پتلی تماشا بنی ہے لیکن اس ٹیم ورک میں کوچ اور کپتان کا کردار کلیدی رہا ہے۔
وقاریونس کوچ کی حیثیت سے اپنی دوسری مدت میں ایک بار پھر پوری تندہی سے کھلاڑیوں پر محنت کرتے نظر آرہے ہیں اور میدان میں کپتان مصباح الحق نے اپنے کھلاڑیوں کو حریف سے خوب لڑایا ہے۔
خاموش طبع مصباح الحق نے ماضی کی طرح اس بار بھی ناقدین کو اپنی کارکردگی سے جواب دے دیا ہے لیکن اس بار یہ جواب پہلے سے زیادہ موثر ہے۔
حالیہ برسوں میں مصباح الحق کو ایک خاص مقصد کے تحت کی جانے والی تنقید کا سامنا رہا ہے جو اس لیے بھی زیادہ حیران کن معلوم ہوتی رہی ہے کہ ٹیم جیتے اور مصباح الحق دنیا بھر کے بیٹسمینوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بھی بنے تب بھی ان مخصوص ناقدین کے منہ سے مصباح الحق کی تعریف نہ نکل سکی۔
آج جب مصباح الحق نے آسٹریلیا کے خلاف نئی تاریخ رقم کردی ہے ان بقراطی ناقدین نے اپنے تبصروں کے موضوع ہی بدل ڈالے ہیں۔
یہ مصباح الحق کے کریئر کی سب سے اہم ترین سیریز تھی جس میں نہ صرف وہ خود اپنی زندگی کی یادگار بیٹنگ کرگئے بلکہ ٹیم نے تاریخی فتح کے ساتھ کپتانی
کی خواہشات رکھنے والوں کو اچھی خاصی تکلیف پہنچا دی۔
اس تمام تر صورتحال میں کریڈٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریارخان کو جاتا ہے جنہوں نے مصباح الحق پر مکمل اعتماد کا برملا اظہار کرکے کپتانی کی خواہشات رکھنےوالوں کو واضح پیغام دے دیا کہ وہ اس جانب اب سوچنا بند کردیں۔
مصباح الحق نے ایک ایسے دور میں پاکستانی ٹیم کی کپتانی سنبھالی تھی جب سپاٹ فکسنگ نے پاکستانی کرکٹ کے چہرے کو بری طرح مسخ کردیا تھا اور انھیں اس سیاہی کو مٹانے کے لیے کئی یادگار کامیابیاں حاصل کرنی پڑیں۔
آج جب وہ چودہ ٹیسٹ فتوحات میں عمران خان اور جاوید میانداد کے ساتھ اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوا ہے۔
مصباح الحق پر دفاعی انداز اختیار کرنے والے کپتان کاالزام لگتا رہا ہے لیکن اگر اسی انداز نے انہیں کامیاب ترین کپتان بنایا ہے تو پھر یہ بات اس جارحانہ انداز سے کہیں بہتر ہے جسے اختیارکرکے آپ میچ ہارتے چلے جائیں ۔ یہ دلیل کسی اور کی نہیں خود مصباح الحق کی ہے۔
مصباح الحق پر سست رفتاری سے بیٹنگ کا الزام عام سی بات رہی ہے لیکن یہ الزام عائد کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ مصباح الحق نے جب بھی کریز کا رخ کیا ٹیم ان سے مشکل حالات میں ایسی بیٹنگ کا تقاضہ کرتی رہی ہے جس میں شائقین کو تفریح فراہم کرنا ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔
ابوظہبی ٹیسٹ کی مثال سب کے سامنے ہے جب ان پر کوئی دباؤ نہ تھا اور انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی تیز ترین سنچری کی برابری کرڈالی۔
مصباح الحق نے یہ اننگز کھیل کر یہ بھی بتادیا کہ وہ ایسا بھی کھیلنا جانتے ہیں لیکن ان سے پہلے آنے والوں کی جلد وکٹیں گرنے سے ان کے ہاتھ بندھ جایا کرتے ہیں
No comments:
Post a Comment