فیض احمد فیض
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
کہاں گئے شب ہجراں کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
(فیض احمد فیض )
No comments:
Post a Comment