کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینی حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بهی ،الله تم اٹھ کر آ نا سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
اب نزاع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
No comments:
Post a Comment