تم دانستہ بھول گۓ
آدھے آدھے جو بھی کیے تھے
سارے کام فضول گۓ
رات ہوئی تو یاد آتے تم
صبح ہوئی تو بھول گۓ
بارش اور تمہارا غم
مشروط ہوا ہے مدت سے
دور کہیں پر بادل برسے
آنکھ میں آنسو جھول گۓ
کتنی دیر ہنسے تھے جب
میں نے جھوٹی تعریفیں کیں
تم دانستہ بھول گۓ
(نا معلوم )
No comments:
Post a Comment