نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب
نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب
سنوارتے ہیں یونہی چہرہ گلستاں خوب
کھلا کے دل و جاں پہ پھول زخموں کے
مسرتوں کو کیا آپ نے نمایاں خوب
لہو اچھال کے اہل وفا کا راہوں میں
قدم قدم پہ کیا پاس دل فگاراں خوب
مچی ہے چاروں طرف آپ کے کرم کی دھوم
نبھاۓ آپ نے الفت کے عہد و پیماں خوب
ہر اک بجھتا ہوا دیپ کہہ رہا ہے یہی
تمام رات رہا جشن نوبہاراں خوب
No comments:
Post a Comment