بچپن
گرمیوں میں جب گھر والے سو جاتے تھے
دھوپ کی انگلی تھام کے ہم چل پڑتے تھے
ہمیں پرندے کتنےپیار سے تکتے تھے
ہم جب ان کے سامنے پانی رکھتے تھے
موت اپنی آغوش میں ہمیں چھپاتی تھی
قبرستان میں جا کر کھیلا کرتے تھے
راستے میں اک ان پڑھ دریا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جایا کرتے تھے
جیسے سورج آ کر پیاس بجھانے گا
صبح سویرے ایسے پانی بھرتے تھے
اڑنا ہم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑیاں پکڑ کر انکو چوما کرتے تھے
تتلیاں آ کر ہم کر بیٹھا کرتی تھیں
ہم پھولوں سے اتنا ملتے جلتے تھے
ملی تھی جنہیں جوانی راستے میں
ہم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے
heart touching. epic
ReplyDelete