احمد ندیم قاسمی
دشمن بھی جو چاہے تو مری چھاؤں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سر راہ گزر ہوں
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں ، غریب شہر نہیں
میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے ، تو ٹپکا کیسے ؟
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیم
وہ تو غریب و غیور انتہا کا تھا
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے تیرے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تیری صورت کر دی
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا سہارا تیرا
(احمد ندیم قاسمی )
No comments:
Post a Comment